مسائل وفتاویٰ

 

 

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حضرات مفتیان کرام!           السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ

عرض یہ ہے کہ شوال کے چھ روزے رکھنا کیسا ہے، مکروہ ہے یا نہیں؟ اگر نہیں تو براہ کرم! دلیل سے اطلاع فرماکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں!

مستفتی: محمد فردوس، پورنیہ، بہار

متعلّم دارالعلوم دیوبند

بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم

الجواب وباللّٰہ التوفیق: ماہ رمضان کے روزے رکھ کر عید الفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے، مکروہ ہرگز نہیں، فقہ حنفی میں صحیح وراجح اور مفتی بہ قول یہی ہے؛ البتہ اگر کوئی شخص عید الفطر کے دن روزہ رکھتا ہے اور اس کے بعد پانچ دن تو یہ مکروہ قرار دیا گیا ہے، چند دلائل اور حوالہ جات درج ذیل ہیں:

(۱) صحیح مسلم میں حضرت ابوایوب انصاری سے روایت ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے رمضان کے روزے رکھے، پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے تو یہ پوری زندگی روزہ رکھنے کے برابر ہے، عن أبي أیوب الأنصاري أنہ حدثہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال: من صام رمضان ثم أتبعہ ستًا من شوال کان کصیام الدھر، رواہ مسلم (مشکاة المصابیح، کتاب الصوم، باب صیام التطوع، ص۱۷۹، ط: المکتبة الأشرفیة دیوبند)، البتہ حضرت ثوبان اور حضرت جابربن عبداللہ کی روایت میں ہے کہ یہ ایک سال روزے کے برابر ہے (رسالہ: تحریر الأقوال في صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص۳۹۱-۳۹۳، مطبوعہ: دارالنوادر، سوریة، لبنان، الکویت)

(۲) صاحب بدائع علامہ کاسانی نے فرمایا: اتباع مکروہ یہ ہے کہ آدمی عیدالفطر کے دن روزہ رکھے اور اس کے بعد پانچ دن روزے رکھے اور اگر کسی نے عیدالفطر کے دن افطار کیا، پھر اس کے بعد چھ دن روزے رکھا تو یہ مکروہ نہیں؛ بلکہ مستحب وسنت ہے۔

والاتبا المکروہ ھو أن یصوم یوم الفطر ویصوم بعدہ خمسة أیام، فأما اذا أفطر یوم العید ثم صام بعدہ ستة أیام فلیس بمکروہ؛ بل ھو مستحب وسنة (بدائع الصنائع، کتاب الصوم ۲:۵۶۲، ط: دارالکتب العلمیة بیروت)

(۳) صاحب ہدایہ علامہ مرغینانی نے فرمایا: مرغوب وپسندیدہ روزوں میں شوال کے مسلسل چھ روزے بھی ہیں (رسالہ: تحریر الأقوال في صوم الست من شوال من مجموعة رسائل العلامة قاسم بن قطلوبغا، ص۳۸۶)۔

(۴) فتاویٰ عالمگیری میں البحرالرائق کے حوالے سے ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں اور محیط سرخسی کے حوالے سے ہے: صحیح ترقول یہ ہے کہ شوال کے چھ روزوں میں کچھ حرج نہیں، یعنی: یہ روزے مستحب ہیں؛ کیوں کہ حرج کی نفی قول کراہت کے مقابلہ میں ہے اور ایسی صورت میں حرج نہ ہونے کا مطلب استحباب ہوتا ہے۔

عامة المتأخرین لم یروا بہ - بصوم الستة من شوال - بأسًا ھکذا في البحر الرائق، والأصح أنہ لا بأس بہ کذا فی محیط السرخسي (الفتاوی الھندیة، کتاب الصوم، الباب الثالث فیما یکرہ للصائم وما لا یکرہ، ۱:۲۰۱، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، وکلمة ”لابأس“ ھنا مستعملة فی المندوب؛ لأنھا لیست مطردة لما ترکہ أولیٰ؛ بل تستعمل فی المندوب أیضاً اذا کان المحل مما یتوھم فیہ البأس أي: الشدة، خاصة اذا تأید ذلک الأمر بالحدیث النبوي - علی صاحبہ الصلاة والسلام - کذا حققہ الحصکفي وابن عابدین الشامی فی الدرالمختار وحاشیتہ رد المحتار (کتاب الطھارة ۱:۲۴۱، کتاب الصلاة، باب العیدین ۳:۶۵، باب الجنائز فی شرح قول الدر: ”ولا بأس برش الماء علیہ“ ۳:۱۴۳ و ۶:۲۵۷، ط: مکتبة زکریا دیوبند)، مثلھا کلمة ”لاجناح“ بل قد استعملت ھذہ في سورة البقرة (رقم الآیة: ۱۵۸) بمعنی الوجوب کما فی رد المحتار لابن عابدین الشامی (۶:۲۵۷)، وکلمة ”لا حرج“ أیضاً؛ لأنھا بمعناھا

(۵) علامہ حصکفی نے درمختار میں ابن کمال کے حوالے سے وہی مضمون نقل فرمایا ہے، جو اوپر بدائع کے حوالے سے ذکر کیاگیا، یعنی: عیدالفطر کا دن چھوڑ کر ماہ شوال میں چھ روزے رکھنا مستحب وسنت ہے اور علامہ شامی نے اپنے حاشیہ میں اسے برقرار رکھا؛ بلکہ متعدد کتابوں کے حوالے سے اسے موٴکد فرمایا اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی اور آخر میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ (تحریر الأقوال فی صوم الست من شوال) کا حوالہ دیا جس میں علامہ قاسم بن قطلوبغا نے کراہت کے قول کی تردید فرماکر کتب مذہب سے استحباب وسنیت کے قول کو موٴکد فرمایا ہے، ذیل میں صرف درمختار کی عبارت پیش کی جاتی ہے:

والاتباع المکروہ ھو أن یصوم الفطر وخمسة بعدہ، فلو أفطر لم یکرہ؛ بل یستحب ویسن، ابن کمال (الدرالمختار مع ردالمحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم وما یکرہ فیھا، ۳:۴۲۲، ط: مکتبة زکریا دیوبند)

(۶) اسی طرح علامہ محمدیوسف بنوری نے بھی سنن ترمذی کی مشہور شرح: معارف السنن (کتاب الصوم، باب ما جاء في صیام ستة من شوال) میں علامہ قاسم بن قطلوبغا کے رسالہ کی روشنی میں اسی قول کو موٴکد فرمایا ہے کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں اور کراہت کے قول کی تردید فرمائی ہے۔

(۷) علامہ ظفر احمد عثمانی نے اعلاء السنن (۹:۱۷۷، مطبوعہ: ادارة القرآن والعلوم الاسلامیة کراچی) میں حضرت ابی ایوب انصاری کی روایت پر استحباب کا باب قائم فرمایا ہے، یعنی: باب استحباب صیام ستة من شوال الخ معلوم ہوا کہ شوال کے چھ روزے مستحب ہیں۔

(۸) بہشتی زیور کامل (۳:۱۴۲) میں ہے:

عید کے بعدچھ دن نفل روزہ رکھنے کا بھی اورنفلوں سے زیادہ ثواب ہے۔

درج بالا چند دلائل اور حوالہ جات سے یہ بات اچھی طرح واضح ہوگئی کہ شوال کے چھ روزے احناف کے نزدیک بلاشبہ مستحب وسنت ہیں اور ان کی کراہت کا قول صحیح نہیں۔ فقط واللہ تعالیٰ أعلم۔

 

محمد نعمان سیتاپوری غفرلہ

دارالافتاء دارالعلوم دیوبند

۷/ذی قعدہ ۱۴۳۷ھ

مطابق ۱۱/اگست ۲۰۱۶/ پنجشنبہ

 

 الجواب صحیح: محمود حسن غفرلہ، فخرالاسلام، محمد اسداللہ غفرلہ

مفتیانِ دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

$$$

 

--------------------------------------------------

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ7، جلد:101 ‏،شوال 1438 ہجری مطابق جولائی 2017ء